Orhan

Add To collaction

اک ان چاہا رشتہ

اک ان چاہا رشتہ از سحر نور قسط نمبر9

قافلے چل دیئے اپنی اپنی راہ کی جانب سفر کے راہی ایک دم بچھڑسے گئے ٹوٹے دلوں پہ ایک بار پھر سے مرہم رکھ کر وہ اپنی اپنی منزل کی جانب رواں ہوئے آنکھوں سے آنسوؤں کی رم جھم چھپائے ہاتھوں سے ہاتھ نکال کر چل دیے (نور)۔ سوری۔۔ بھیا۔۔ کیا سوری۔ میں پتہ نہیں سمجھا ہی کیوں رہا ہوں آپکو۔ اپ کرو اپنی مرضی جو جی میں آئے کرو۔ اب کی بار وہ غصے میں جب پلٹا۔ تو اس نے زری کو فل سپیڈ سے روتے دیکھا۔ زین کے دل کو لمحے بھر کیلئے بے حد تکلیف محسوس ہوئ۔ بہنا۔۔ زین نے پریشان لہجے میں پکارا۔ زری ابھی بھی رو رہی تھی۔ بہنا سوری۔۔ میرا ہرگز ارادہ ایسا نہیں تھا آپکو رلانا۔ پلیز چپ ہوجائیں۔ میں صرف یہی چاہتا ہوں کہ اپکو اب سمجھدار ہوجائیں۔ لوگوں کے رویوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپکو نہیں معلوم آپکے یہ آنسو مجھے کتنی تکلیف دے رہے ہیں۔ کوئی بات نہیں بھیا۔۔ آپ نے جو کیا ٹھیک کیا۔۔ مجھے آج تک کسی نے اس انداز سے نہیں سمجھایا۔ جس کے انداز میں میرے لئے فکر ہو۔ پریشانی ہو اور اپنا پن ہو۔ مجھے بلکل برا نہیں لگا۔ زری اب آنسو پونچھ رہی تھی۔ تو پھر آپ رو کیوں رہی ہیں۔ زین اب منہ بنا کر بیٹھ گیا۔ ہاہا۔۔ رو تو اسلئے رہی ہوں ۔۔ اپ سے پہلی بار ڈانٹ کھائی ہے وہ بھی ٹھیک ٹھاک قسم کی۔ تو وہ بس برداشت نہیں ہوا۔ زری دھیرے سے مسکرائی۔ سوری۔۔ سچ میں۔۔ آئندہ خیال رکھوں گا۔ ویسے بھی مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ سے اسطرح بات کروں۔ زین نے کافی ٹوٹے لہجے میں کہا۔ کیوں۔۔ کیوں نہیں۔۔ ایسا کیوں کہا آپ نے۔ میں کونسا اپکا سگا بھائی ہوں۔ کوئی خون کا رشتہ نہیں ہے ہمارا۔ زری کا دل کٹ کر رہ گیا۔ بھیا۔۔ آج یہ آپ کہہ رہے ہیں دوبارہ نہ کہنا پلیز۔ زری پھر سے رودی۔ ااااچچچھااااا۔۔۔ آپ یہ ایموشنل سین توبند کرو۔۔ کیوں جوتے پڑوانے ہیں مجھے۔ زری ایک بار پھر سےاسکے اسطرح کہنے سے ہنس دی۔ 🍁🍁🍁🌹🌹🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🌹🍁 یونیورسٹی میں اسکا سیکنڈ لاسٹ سمیسٹر چل رہا تھا۔۔ زری نے اپنی پوزیشن پھر سے واپس حاصل کر لی تھی۔ وہ با اعتماد تو ہوگئی تھی مگر اب وہ زین پہ بہت ذیادہ انحصار کرنے لگی تھی۔ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی پرابلمز بھی اس سے پوچھ کر حل کرتی۔ ان کا رشتہ بہت مضبوط تھا۔ مگر معلوم نہیں زری اب دن بدن ایک خوف میں مبتلا ہورہی تھی۔ اور اس بات کا اس نے زین سے بھی اظہار کیا۔ بھیا۔۔ زری کافی اداس تھی۔ جی۔۔ بھیا آج کل پتہ نہیں میرے ذہن میں ایک بات بہت آرہی ہے۔ اس سے میں بہت ڈسٹرب ہوں ۔ کونسی بات۔ کیا ہوا؟ کیا پھر کوئی الٹی حرکت کردی ہے۔
ہاہا۔۔ نہیں نہی۔۔ایسا نہیں ہے۔ زری نے ہنستے ہوئے کہا۔ پھر۔۔ ؟ بھیا۔ وہ۔۔ میں ایک جگہ پڑھ رہی تھی۔ کہ کوئی رشتہ جائز نہیں ہے سوائے خون کے رشتوں کے۔ زری نے اٹکتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔ ہمم۔۔ زین بس اتنا ہی کہہ سکا۔ بھیا۔ ۔ میں کہیں بھی آپ کے ساتھ رشتہ کو ڈیفینڈ نہیں کرسکتی۔۔ کہیں بھی نہیں۔ نہ لوگوں کے سامنے۔۔ نہ اپنے پیرنٹس کے سامنے اور۔۔۔۔ اور۔۔ نہ ہی اللّه‎‎ پاک کے سامنے۔۔ زری نے پریشان ہوکر کہا۔ جی۔۔ زین کچھ بھی نہیں کہہ رہا تھا۔ وہ بس سپاٹ اور خالی نظروں سے زری کے اگلے الفاظ کا انتظار کر رہا تھا۔ بھیا۔۔ یہ سب اب میرے لیے اور مسئلہ پیدا کر رہا۔۔ یہ احساس مجھے اندر ہی اندر جلا رہا کہ میں اپ کے ساتھ رشتہ نہیں رکھ سکتی ۔۔ کیونکہ اگر رشتہ رکھا جاسکتا تو آج زید بن حارثہ بھی زید بن محمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہوتے۔
زین کے چہرے پہ پھیکی سی مسکراہٹ آئی۔ ٹھیک کہا ہے آپ نے۔ میرا کیا رشتہ آپ کے ساتھ۔ کوئی خون کا رشتہ نہیں ہے۔ لیکن یہ بات سچ ہے میں آپکو اپنی سگی بہنوں سے بھی ذیادہ عزیز رکھتا ہوں۔ آپ نے مجھے جس گندگی سے نکالا ہے اس سب کیلیے آپ کا شکرگزار ہوں۔ آپ چاہیں تو اس رشتہ کو ختم کردیں۔ بھیا۔۔ زری تڑپ اٹھی۔ آپ سوچ لیں۔۔ پھر جو اپکا فیصلہ ۔۔ میں اعتراض نہیں کرونگا۔ یہ کہہ کر زین وہاں سے چلا گیا۔ 🍁🍁🍁🌹🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🍁🍁🌹🌹🌹🌹 کچھ دن گزرے انہیں وہ سب بات بھول گئی۔ یونورسٹی کا ٹرپ مری جارہا تھا جس میں زین نے زری کو کافی منت کر کے بلالیا۔ زری رات کو ہوٹل سے باہر آکر بیٹھ گئی۔
سرد ہوا جو ہڈیوں تک کو جما رہی تھی۔۔ اچانک اسکے کندھوں پہ کسی نے اپر رکھ دیا۔ ارے۔۔ بھیا آپ۔۔ زری نے جیکٹ تھامتے ہوۓ کہا۔ جی جناب۔ اور آپ اتنی ٹھنڈ میں باہر کیا کررہیں ہیں۔۔ دیکھ نہیں رہیں کہ کتنی سرد ہوا چل رہی ہے۔ زین نے اسے گھورتے ہوۓ کہا۔ ہاہہا۔۔ وہ اس لیے کیوں کہ مجھے سو فیصد یقین تھا آپ آئیں گے۔ اچھا اااا۔۔ زین نے آبرو اٹھا کر کہا۔ اتنا یقین۔۔ واہ۔۔ پتہ۔۔بھیا۔۔ جب ہمارا دل کسی چیز کی طلب کر رہا ہوتا ہے نا۔ تو وہ رب ایک بار ضرور دیتا۔ جیسے مجھے ابھی اسی کی طلب تھی۔ زری نے جیکٹ کی طرف اشارہ کیا۔ تو آپ مانگ لیتی۔۔ اگر میں نہ آتا تو۔۔ آپ مجھے کہہ بھی تو سکتی تھی نا۔ آہاں۔۔ نہیں بھیا۔ اپ سے مانگ کر کبھی نہ لیتی بلکہ یہی کہتی میں ٹھیک ہوں۔ پر پتہ بھیا۔۔ یہ جو دماغ ہے نا یہ کبھی اپنی خوداری پہ آنچ نہیں آنے دیتا۔۔ پر دل کا کیا۔۔ وہ تو ناسمجھ ہوتا۔ وہ تو ضد کرتا۔ اور اللّه‎‎ تو دل کی سنتا۔ اور وہ دے دیتا اور جب وہ دے نا چاہے وہ صحیح ہو یا غلط، ہمارے حق میں بہتر ہو کہ نا۔ لیکن بعد کے ہر حالات کی زمہ داری ہم پہ ہی ہوتی ہے۔ کیوں کہ ضد جو ہوتی ہے۔ آپکو کیا ہوگیا۔۔ کیوں سوچ رہی ہیں اتنا۔ زین نے فکر مند سا ہوکر کہا۔ بھیا! آپ کو پتہ بعض اوقات واقعے سمجھ نہیں آتی کیا کروں کیسے کروں۔ پتا میرا بہت دفعہ آپ سے بھی بات کرنے کو دل نہیں کرتا ایسے جیسے دل اچاٹ سا ہوگیا ہو۔
ہیں۔۔۔۔۔ کیا واقعے ؟؟۔۔ زین کو کافی بڑا دھچکا لگا ۔ ہاں۔۔۔ سہی کہ رہی۔ ۔ پر پتا نہیں کیوں کس لیے آپکو سنتی رہتی۔۔زری نے کافی سنجیدگی سے کہا ۔ تو نا سنا کرو۔ ۔ بول دیا کرو میں چلا جایا کروں گا۔ ۔ بات بھی نہیں کرونگا جب تک آپ خود نہیں چاہو گی۔
ہاہاہاہا۔ ۔۔۔ بھیا ایسا نہیں ہے۔۔ میں بس اپنی فیلنگ بتا رہی ہوں۔ مجھے خود پے بہت اچھے سے قابو ہے۔ کس لمحے کس وقت کیسا رویہ رکھنا مجھے معلوم ہے۔ مجھے بس سننا اچھا لگتا۔۔ کوئی پتا نہیں کس مان سے کچھ کہ رہا ہوتا اور میں اگئے سے بول دوں کی میرا موڈ ٹھیک نہیں ابھی بات نا کرو۔ ۔ یا اگر کوئی بات کو اس لیے گھما رہا کیے سننے والا خود جان جاۓ اور اسے میں یہ کہ دوں کے بات کرنی ہے تو کرو میرا دماغ خراب نا کرو۔ ۔ یار یہ تو زیادتی ہوگی نا اس کے ساتھ۔۔ بہنا ۔۔۔۔ آپ واقعے ہی بہت حسساس ہو۔ ۔۔آپ کو کچھ معلوم نہیں لوگ کتنے فراڈ ہوتے۔ یہ دنیا بھری پڑی ہے اس قسم کے لوگوں سے جو لفظوں سے اسیر کرتے ہیں۔ زین نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ہمم۔۔ اندر چلتے ہیں۔۔ زری اٹھ کر اندر کی جانب چل دی۔ ⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕ زری کافی دنوں سے محسوس کر رہی تھی کہ زین اب کافی بزی رہتا۔ اسکے پاس بھی بس لمحے بھر کو آتا حال چال پوچھا اور پھر سے معلوم نہیں کدھر گم ہوجاتا۔ پھر ایک دن زری نے اسے پکڑ ہی لیا۔ کدھر بزی رہتے ہیں آپ۔۔ کہیں دل تو نہیں لگا لیا۔۔ زری نے شوخ لہجے میں کہا۔ ہاں جی۔۔ زین نے جھنپتے ہوئے کہا۔۔ سچ میں۔۔ زری کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔ ہاں جی۔۔ ک۔ ک۔کون۔۔ ککس کے ساتھ۔ زری کو تو جیسے یقین ہی نہیں ہورہا تھا۔ بہنا وہ۔۔ ادھر ہی یونیورسٹی کی لڑکی ہے۔ بہت اچھی ہے۔ ہماری بہت اچھی دوستی ہوگئی ہے۔ اور مجھے وہ بہت اچھی لگی ہے۔ میں بس اب چاہتا ہوں کہ اگر اسکے رویہ سے مجھے کچھ محسوس ہوا تو میں شادی کے لیے کہہ دونگا۔ زین کافی خوش تھا۔ اچھا۔۔ معلوم نہی زری کو کوئی مزید لفظ ملے ہی نہیں وہ بس اچھا ہی کہہ سکی۔ اب وہ زری کو اس لڑکی کے بارے میں بتا رہا تھا۔۔ کافی خوش تھا۔ اچھا میں چلتی ہوں۔
ٹھیک ہے۔ اللّه‎‎ حافظ۔ زین یہ کہہ کر پھر سے کہیں چلا گیا۔ ⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕ زری یہ سب قبول نہیں کر پا رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا اسکی بہت قیمتی چیز اس سے چھین رہی ہے۔ زین کا رویہ مسلسل بدل رہا تھا۔ اسے اسکا نظر انداز کرنا بہت تکلیف دے رہا تھا۔ زین بہت کچھ بھول رہا تھا۔ پہلے وہ اسکے ہلکے سے بدلے لہجے سے پہچان جاتا تھا کہ وہ پریشان ہے اب وہ مسلسل پریشان تھی اسکی وجہ سے اسے وہ سب سمجھ نہیں آرہا تھا۔ بھیا ایسا کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ۔۔ وہ تو اب لفظ بھی کھونے لگی تھی اسکے سامنے۔ بعض اوقات ایسے لمحے آتے بھی آتے ہیں کے انسان کو اپنی ذات کا ایک ایک ذرہ چن چن کر اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ اسکی ذات اس قدر ٹکڑوں میں بٹ گئی ہوتی ہے کے ان کو اکٹھا کرنے میں ہی زندگی بیت جاتی ہے۔ وہ بھی اس لمحے کچھ اسی قسم کی اذیت میں سےگزر رہی تھی۔ اسکا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے سامنے موجود تھا مگر وہ اس سے کچھ نہیں کہہ پارہی تھی۔ اس کے الفاظ جیسے گم سے ہوگئے تھے۔ اسکو آنکھوں میں جلن سی محسوس ہونے لگی پر وہ خود پے کمال ضبط کئے ہوے تھی۔ کیوں کے وہ کسی کو عہد دے چکی تھی کے اب وہ کبھی نہیں روئے گی۔ کتنا تکلیف دہ منظر ہوتا ہے نا جب وہی انسان جو آپ کے آنسووں کو آپ کی انکھوں سے نکلنے سے پہلے ہی پونچھ ڈالے آپ کے بے پناہ رونے کی وجہ بن جاے اس لمحے انسان کی تکلیف اور ضبط دونوں ہی انتہا پے پہنچ جاتے ہیں پر افسوس نا آپ رو سکتے ہیں نا آپ ضبط کر سکتے ہیں۔ میں نے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا بھیا کسی کے لیے مجھے ایسے نظر انداز کریں گے۔ آپ کی ضروریات اپنی جگہ ہیں پر آپ مجھے کیوں بھول رہے ہیں۔ مجھے تو کہنا بھی نہیں آتا آپ سے کچھ۔ میں نے کبھی خود سے کچھ کہا ہی نہیں تھا۔ ہمیشہ آپ ہی تو میرے لہجے سے سب پہچان لیا کرتے تھے۔۔ اب دیکھیں میں کتنا رو رہی ہوں۔ آپ کدھر ہیں۔۔ بھیا آپ نے تو کبھی الگ نہیں کیا تھا مجھے۔ اب کیوں بھول رہے ہیں۔ وہ بہت اذیت محسوس کر رہی تھی۔ وہ انسان جس نے اسے ہنسنا سیکھایا اج وہ اسے کسی اور کیلیے بھول رہا تھا۔ زیادہ تکلیف دہ پہلی بارٹوٹنا نہیں ہوتا ہے۔ تکلیف تو تب ہوتی ہے جب وہ انسان آپکے ٹوٹنے کا باعث بن جائے جس نے آپ کو جوڑا تھا۔ ذکر شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا رستہ بدل کےچلنے کی عادت اسے بھی تھی اس رات دیر تک رہا وہ محوِ گفتگو مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی مجھ سے بچھڑ ا تو شہر میں‌ گھل مل گیا وہ شخص حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا،جی گیا ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید سائےسے پیار دھوپ سے نفرت اسےبھی تھی محسن میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال ِدل درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی.........!!

   1
0 Comments